سورة البروج - آیت 8

وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے ان سے اس کے سوا کسی چیز کا بدلہ نہیں لیا کہ وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو سب پر غالب ہے، ہر تعریف کے لائق ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی ان لوگوں كا جرم جنہیں آگ میں جھونكا جا رہا تھا یہ تھا كہ وہ اللہ پر جو غالب اور قابل ستائش ہے، ایمان لے آئے تھے اس كے واقعہ كی تفصیل میں متعدد احادیث آتی ہیں۔ مختصراً ایك كو رقم كیا جاتا ہے۔ واقعہ اصحاب الاخدود اور ذونواس یہودی بادشاہ: حدیث: سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك بادشاہ كا ایك كاہن (جادو گر) تھا۔ جب وہ كاہن بوڑھا ہو گیا تو اُس نے بادشاہ سے كہا كہ مجھے ایك ذہین لڑكا دو۔ جسے میں یہ علم سكھا دوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایك سمجھدار لڑكا تلاش كر كے اس كے سپرد كر دیا۔ لڑكے كے راستے میں ایك راہب كا بھی مكان تھا۔ یہ لڑكا آتے جاتے اس كے پاس بھی بیٹھتا تھا اور اس كی باتیں سنتا جو اسے اچھی لگتیں۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔ ایك مرتبہ یہ لڑكا جا رہا تھا كہ راستے میں ایك بہت بڑے جانور نے لوگوں كا راستہ روك ركھا تھا۔ لڑكے نے سوچا آج میں پتا كرتا ہوں كہ كاہن صحیح ہے یا راہب؟ اس نے ایك پتھر پكڑا اور كہا: ’’اے اللہ‘‘ اگر راہب كا معاملہ تیرے نزدیك جادوگر سے بہتر اور پسندیدہ ہے تو اس جانور كو مار دے تاكہ لوگوں كی آمد و رفت جاری ہو جائے یہ کہہ كر اس نے وہ پتھر مارا اور وہ جانور مر گیا۔ لڑكے نے جا كر یہ واقعہ راہب كو بتایا راہب نے كہا: بیٹے! اب تم فضل كو كمال كو پہنچ گئے ہو اور تمہاری آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ لیكن اس دور ابتلا میں میرا نام ظاہر نہ كرنا۔ یہ لڑكا مادر زاد اندھے، برص اور دیگر بعض بیماریوں كا علاج بھی كرتا تھا۔ لیكن ایمان باللہ كی شرط پر، اسی شرط پر اُس نے بادشاہ کے ایك نابینا مصاحب كی آنكھیں بھی اللہ سے دعا كر كے ٹھیك كر دیں۔ یہ لڑكا یہی كہتا تھا كہ اگر تم ایمان لے آؤ گے تو میں اللہ سے دعا كروں گا، وہ شفا فرما دے گا، چنانچہ اس كی دعا سے اللہ شفا یاب فرما دیتا یہ خبر بادشاہ تك بھی پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا، بعض اہل ایمان كو تو اس نے قتل كروا دیا۔ اس لڑكے كے بارے میں اس نے چند آدمیوں كو كہا كہ اسے پہاڑ كی چوٹی پر لے جا كر نیچے پھینك دو۔ اس نے اللہ سے دعا كی، پہاڑ میں لرزش پیدا ہوئی، جس سے وہ سب گر كر مر گئے اور اللہ نے اسے بچا لیا۔ بادشاہ نے اسے دوسرے آدمیوں كے سپرد كر كے كہا كہ ایك كشتی ميں بٹھا كر سمندر كے بیچ میں لے جا كر اسے پھینك دو، وہاں بھی اس كی دعا سے كشتی اُلٹ گئی جس سے وہ سب غرق ہو گئے اور وہ بچ گیا۔ اس لڑكے نے بادشاہ سے كہا، اگر تو مجھے ہلاك كرنا چاہتا ہے تو اس كا طریقہ یہ ہے كہ ایك كھلے میدان میں جمع سب کو كرو اور (بسم اللّٰہ رب ھذا الغلام) كہہ كر مجھے تیر مارو۔ بادشاہ نے ایسا ہی كیا، جس سے وہ لڑكا مر گیا لیكن سب لوگ پكار اُٹھے كہ ہم اس لڑكے كے رب پر ایمان لائے، بادشاہ اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ چنانچہ اس نے خندقیں كھدوائیں اور ان میں آگ جلا دی اور حكم دیا كہ جو ایمان سے انحراف نہ كرے اس كو آگ میں پھینك دو۔ اس طرح ایماندار آتے رہے اور آگ كے حوالے ہوتے رہے، حتیٰ كہ ایك عورت آئی جس كے ساتھ ایك بچا تھا۔ وہ ذرا ٹھٹھكی تو بچہ بول پڑا (’’ماں صبر كر تو حق پر ہے‘‘)۔ (مسلم: ۳۰۰۵، مسند احمد: ۶/۱۶۔۱۸)