إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے، ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔
گناہ گار روز قیامت رسوا ہوں گے: یعنی دنیا میں تو ان كافروں كی خوب بن آئی تھی۔ ایمانداروں كا مذاق اڑاتے، چلتے پھرتے اور ان پر آوازے كستے رہے اور حقارت و تذلیل كرتے رہے اور اپنے گھر والوں میں جا كر خوب باتیں بناتے تھے۔ پلكوں اور ابرؤں سے ایك دوسرے كو اشارے كر كے ان كی تحقیر اور ان كے مذہب پر طعن كرتے تھے۔ جب گھروں میں لوٹتے تو وہاں خوشحالی اور فراغت ان كا استقبال كرتی اور وہ جو چاہتے انہیں مل جاتا۔ اس كے باوجود شكر تو كہاں اور كفر پر آمادہ ہو كر مسلمانوں كی ایذا رسانی پر آمادہ ہو جاتے تھے اور چونكہ مسلمان ان كی مانتے نہیں تھے تو یہ انہیں گمراہ كیا كرتے تھے۔ (ابن كثیر) یعنی اہل توحید اہل کفر كی نظر میں اور اہل ایمان اہل كفر كے نزدیك گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی صورت حال آج بھی ہے۔ گمراہ اپنے آپ كو اہل حق اور اہل حق كو گمراہ باور كراتے ہیں۔ كافر نگران نہیں ہیں: یعنی یہ كافر مسلمانوں پر نگران بنا كر تو نہیں بھیجے گئے ہیں كہ یہ ہر وقت مسلمانوں كے اعمال و افعال ہی دیكھتے اور ان پر تبصرے كرتے رہیں یعنی جب یہ ان كے مكلف ہی نہیں تو پھر كیوں ایسا كرتے ہیں۔ ایماندار كافروں پر ہنسیں گے: یعنی جس طرح دنیا میں كافر اہل ایمان پر ہنستے تھے قیامت والے دن یہ كافر اللہ كی گرفت میں ہوں گے اور اہل ایمان ان پر ہنسیں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں كہ تم اس قدر غافل ہو گئے كہ میری یاد بھلا بیٹھے اور میرے خاص بندوں كا مذاق اُڑاتے تھے دیكھو آج میں نے ان كو ان كے صبر كا بدلہ دیا ہے كہ وہ ہر طرح كامیاب ہیں، اور آج ایماندار بدكاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے خدا كو دیكھ رہے ہیں۔ یہ اس بات كا ثبوت ہے كہ یہ گمراہ نہ تھے۔ بلكہ یہ دراصل اولیاء اللہ تھے۔ مقربین خدا تھے۔ یہ خدا كے مہمان ہیں اور ان كے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جیسا كچھ ان كافروں نے مسلمانوں كے ساتھ كیا تھا اس كا بدلہ انہیں قیامت كے دن پورا پورا مل جائے گا جب یہی خستہ حال مومن جنت میں اونچی مسندوں پر بر اجمان ہوں گے اور وہیں سے كافروں كا نظارہ كر رہے ہوں گے ان كا مذاق اُڑائیں گے اور ان سے پوچھیں گے كہ بتاؤ! احمق، دیوانے اور گمراہ تم تھے یا ہم۔ حضرت ابو ارفع فرماتے ہیں میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كے پیچھے عشاء كی نماز پڑھی۔ آپ نے اس میں اِذالسَّمَاءُ انْشَقَّتْ كی تلاوت كی اور سجدہ كیا میں نے پوچھا تو جواب دیا كہ میں نے ابو القاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے پیچھے سجدہ كیا (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سورت كو نماز میں پڑھا اور آیت سجدہ پر سجدہ كیا اور مقتدیوں نے بھی سجدہ كیا) پس میں جب تك آپ سے جا نہ ملوں گا (اس وقت تک) سجدہ كرتا رہوں گا (یعنی مرتے دم تك)۔ (بخاری: ۷۶۶، مسلم: ۵۷۸)