وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور کسی مومن کا کبھی یہ کام نہیں کہ کسی مومن کو قتل کرے مگر غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو ایک مومن گردن آزاد کرنا اور دیت دینا ہے، جو اس کے گھر والوں کے حوالے کی گئی ہو، مگر یہ کہ وہ صدقہ (کرتے ہوئے معاف) کردیں۔ پھر اگر وہ اس قوم میں سے ہو جو تمھاری دشمن ہے اور وہ مومن ہو تو ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے، اور اگر اس قوم میں سے ہو کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی عہدو پیمان ہو تو اس کے گھر والوں کے حوالے کی گئی دیت ادا کرنا اور ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے، پھر جو نہ پائے تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھنا ہے۔ یہ بطور توبہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
مذکورہ آیت میں قتل خطا کے احکامات کو بیان کیا گیا ہے اور قتل خطا یہ ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو مگر غلطی سے قتل ہوجائے قتل خطا کے اسباب کئی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً تیریا پتھر مارا تو شکار کو تھا اور وہ کسی مسلمان کو لگ گیا، اندھی گولی سے قتل، لڑائی وغیرہ میں مسلمان کو کافر سمجھ کر قتل کر دیا۔ غرض کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جن میں ارادہ شامل نہ ہو۔ ایسے قتل خطا کا کفارہ اس طرح ادا کرنا ہوگا۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک مومن غلام (خواہ مرد ہویا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا۔ خون بہا سو اونٹ یا اس کے برابر قیمت ہے جو ورثا کو ادا کرنی ہوگی، معاف بھی کرسکتے ہیں۔ اگر قاتل کو آزاد کرنے کے لیے غلام میسر نہ ہو تو متواتر دو ماہ کے روزے بھی رکھنے ہونگے۔ یعنی دیت اور دو ماہ کے روزے۔ اگر مقتول مومن ہو مگر دشمن قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر غلام میسر نہ آئے تو متواتر دو ماہ کے روزے رکھنے ہونگے، اس کی دیت نہیں ہوگی۔ اگر مومن مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں ۔ معافی سے مراد معافی کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔