مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
ہرامر اللہ کی طرف سے ہے۔ اگر انسان اچھے عمل کرے تو اسے اچھا بدلہ ملے گا اور یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے ۔ کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی اتنی نعمتیں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت و اطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں جو بھی جائے گا محض اللہ کی رحمت سے جائے گا، اپنے عمل کی وجہ سے نہیں ۔صحابہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں جب تک مجھے بھی اللہ اپنے دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا۔ (بخاری: ۵۶۷۳) اور یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے لیکن یہ برائی یا کسی گناہ کا بدلہ ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی تمہاری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ﴾ (الشوریٰ: ۳۰) ’’تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے۔‘‘ ’’اگر تم نے شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ اور اگرناشکری کی تو یاد رکھو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ رسول اللہ کو سب لوگوں کے لیے رسول بناکر بھیجا ہے: کوئی رنگ، نسل، زبان، قوم اور کوئی وطن اس سے مستثنیٰ نہیں، آپ سب کے لیے ہادی و مرشد ہیں۔ اور کون ہے جو آپ کی رسالت اور اطاعت سے منحرف ہو۔ یہ تو یہودیوں کا شیوہ ہے کہ جو آیات ان کے نفس کے مطابق ہوتیں انھیں مان لیتے اور دوسری آیات کا مطلب حسب منشا گھڑلیتے۔ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے والوں کے لیے اور سنت نبوی سے انحراف کرنیوالوں کے لیے سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا﴾ اور اللہ کافی ہے گواہ۔ اس حقیقت کی صداقت پر خود اللہ گواہ ہے۔ ایسے گواہ کی شہادت کے بعد دنیا بھر کے منکرین حق کا انکار کوئی وقعت نہیں رکھتا۔