سورة النسآء - آیت 77

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مکہ میں قریش نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے ان کا نشانہ صرف عام مسلمان ہی نہیں بلکہ آزاد اور معزز مسلمان حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان لوگوں کے ہاتھوں متعدد بار ایذائیں پہنچیں اس وقت بعض جرأت مند لوگوں نے ان کے ساتھ جنگ کی اجازت چاہی۔ مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے لحاظ سے اس قابل نہیں تھے اس لیے مسلمانوں کو ان کی خواہش کے باوجود قتال سے روکے رکھا گیا۔ اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی۔ (۱)مصائب کو صبر سے برداشت کیے جاؤ (۲) اور اپنی تمام تر توجہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر صرف کرو تاکہ اللہ سے تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول! ہم عزت والے تھے جب کہ ہم مشرک تھے، پھر جب ایمان لے آئے تو ذلیل ہوگئے‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ابھی مجھے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا جنگ نہ کرو۔‘‘ پھر جب اللہ نے ہمیں مدینہ منتقل کردیا، تو ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا، اور بعض لوگ جنگ سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری۔ (نسائی: ۳۰۸۸) مہلت کیوں نہ دی: مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فائدہ ہو یا نقصان سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے اس آیت میں عقیدہ و تقدیر کا دوسرا رُخ پیش کیا ہے کہ اللہ کی مشیت کے علاوہ انسان کو قوت ارادہ اور اختیار بھی دیا گیا ہے۔ اور خیروشر کی دونوں راہیں بھی بتادی گئی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر معاشرہ میں تمام لوگ ایک ہی جیسی جرأت والے نہیں ہوتے۔ پورے مومن ہونے کے باوجود ہر ایک کی استعداد الگ ہوتی ہے۔ لہٰذا جن کمزور دل لوگوں نے یہ بات کہی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا: ایسے لوگوں کو بھی پامردی دکھانی چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے مفادات تو چند روزہ ہیں۔ آخرت پہ نظر رکھنی چاہیے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اور ان کا عمل تھوڑا بھی ہو تو انھیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔