وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔
اس آیت میں چار قسم کے لوگوں کا ذکر ہے۔ (۱) انبیاء نبی ہی اپنی امت کا افضل ترین فرد ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نبوت کے لیے چن لیتا ہے۔ (۲) صدیق جو ہر معاملہ میں راست باز ہو، حق کا ساتھ دینے والا ۔ حق کی گواہی دینے والا اورباطل کے خلاف ڈٹ جانے والا ہو۔ (۳) شہید، حق و صداقت پر قائم رہتے ہوئے اللہ کی راہ میں جان دینے والا۔ (۴) صالح جس کی ہر حرکت اور ہر عمل سے نیکی ظاہر ہوتی ہو۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بسر و چشم اطاعت کرتا ہے اسے اس کا صلہ بیان کیا ہے کہ وہ جنت میں ان مذکورہ لوگوں کی رفاقت میں ہوگا، یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہوگا۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’آدمی انہی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہوگی۔‘‘ (بخاری: ۶۱۶۹) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کو جتنی خوشی اس فرمان کو سن کر ہوئی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’کہ میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا کرتا تھا۔ اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ میں وضو کروا رہا تھا تو آپ نے خوش ہوکر فرمایا ’’مانگ کیا مانگتا ہے۔‘‘ میں نے کہا میں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ’’اس کے علاوہ کوئی اور بات‘‘ میں نے کہا ’’میں تو یہی چیز مانگتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اچھا! کثرت سے سجود (نفل عبادت) اپنے آپ پر لازم کرلو۔ اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو۔ (مسلم: ۴۸۹) کیونکہ سجدہ ہی وہ عبادت ہے جس سے بندے کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔