لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ
تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے، تاکہ اسے جلدی حاصل کرلے۔
آیت نمبر ۱۶ سے ۱۹ تك كی تفسیر كے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں كہ جب سیدنا جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے كر آتے تو آپ زبان اور لب ہلاتے رہتے (كہ كہیں بھول نہ جائے) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بہت سخت ہو جاتی۔ جو دوسروں كو بھی معلوم ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں یعنی وحی كا آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے دل میں جما دینا (یاد كرا دینا) ہمارے ذمہ ہے، اور اس كا پڑھا دینا بھی، تو جب ہم پڑھ چكیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح پڑھیں جیسے ہم نے پڑھا تھا۔ اور جب تك وحی اترتی رہے خاموش سنتے رہیں۔ پھر وحی كے الفاظ كو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی زبان پر رواں كر دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ چنانچہ ان آیات كے نزول كے بعد جب جبرائیل علیہ السلام آتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے اور جب چلے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح پڑھ كر سنا دیتے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو سنایا ہوتا۔ (بخاری: ۵، مسلم: ۴۴۸) سورئہ طہٰ (۱۱۴) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا﴾ ’’جب تك تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ كیا كر۔ ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم كو زیادہ كرتا رہ۔‘‘ یعنی جب ہم اس كی قراءت آپ پر پوری كر لیں تو پھر اس كے شرائع واحكام لوگوں كو پڑھ كر سنائیں۔ قرآن كا واضح كرنا بھی ہمارے ذمہ ہے: یعنی پہلی حالت تو یاد كرانا، دوسری تلاوت كرانا، تیسری تفسیر مضمون اور توضیح مطالب كرانا کہ ان تینوں حالتوں کی كفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی۔ یعنی قرآن كے مشكل مقامات كی تشریح، حلال وحرام كی توضیح یہ بھی ہمارے ذمہ ہے۔ اس كا صاف مطلب ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن كے مجملات كی جو تفصیل، مبہمات كی جو توضیح اور اس كے عمومات كی جو تخصیص بیان فرمائی ہے جسے حدیث كہا جاتا ہے یہ بھی اللہ كی طرف سے ہی الہام کی ہوئی اور سجھائی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے انھیں بھی قرآن كی طرح ماننا ضروری ہے۔