فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔
اختلافات کے خاتمے کا واحد حل رسول اللہ کی اتباع میں ہے۔ شان نزول: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے ایک آدمی سے کھیت سیراب کرنے والے نالے پر جھگڑا ہوگیا۔ آپ نے صورتحال کا جائزہ لیکر جو فیصلہ دیا وہ اتفا ق سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم: ۲۳۵۸، بخاری: ۴۵۸۵) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کُجا دل میں گھٹن محسوس کرنا بھی ایمان کے منافی ہے۔ اطاعت علم سے ملتی ہے ۔ رسول اللہ کی اطاعت علم حدیث سے ملتی ہے۔ نماز کا طریقہ، مناسک حج کس نے سکھائے، رسول اللہ کا محتاج ہمیں اللہ نے بنایا ہے۔ چند متشابہات کی وجہ سے کچھ لوگ تمام احادیث کا انکار کرتے ہیں۔