ثُمَّ نَظَرَ
پھر اس نے دیکھا۔
پھر اس نے اپنے ساتھیوں پر ایك فاخرانہ نگاہ ڈالی۔ پھر ازراہ تكبر پیشانی كو سكیڑا۔ پھر منہ بگاڑ كر حق سے ہٹ كر، بھلائی سے منہ موڑ كر، اطاعت الٰہی سے پھیر كر دل كڑا كر كے صاف كہہ دیا كہ یہ قرآن اللہ كا كلام نہیں بلكہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے سے پہلے لوگوں كا جادو منتر نقل كر لیا كرتے تھے اور اسی كو سنا رہے ہیں یہ كلام ربانی نہیں بلكہ انسانی قول ہے اور جادو سے نقل كیا جاتا ہے۔ اور باہر سے آنے والے لوگوں كو یوں كہہ سكتے ہو كہ یہ شخص ایسا كلام پیش كرتا ہے جو ایسا جادو ہے جس سے بھائی سے بھائی، باپ بیٹے سے، شوہر بیوی سے جدا ہو جاتا ہے اور كنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے چنانچہ اس تجویز سے متفق ہو كر سب رخصت ہوگئے۔ اس مكالمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے كہ ولید بن مغیرہ پر قرآن كی حقیقت پوری طرح واضح ہو چكی تھی اب وہ جو كچھ پینترے بدل رہا تھا محض اپنے اقتدار اور جاہ و منصب كو محفوظ ركھنے كی خاطر كر رہا تھا، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس كی اسی ہٹ دھرمی اور كج فكری كا نقشہ پیش كیا ہے۔