وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ (۱) اللہ کی ہدایت کو ماننے والے۔ (۲) اور اس کا انکار کرنے والے۔ اس آیت میں کفار کے مقابلے میں ماننے والوں کے لیے ابدی نعمتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن وہ اہل ایمان جو اعمال صالحہ کی دولت سے مالا مال ہونگے، قرآن پاک میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کرکے واضح کردیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول خوشبو کے بغیر، درخت ہو لیکن بے ثمر ۔ صحابہ کرام نے اس نکتہ کو سمجھ لیا تھا اس لیے ان کی زندگیاں اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں، اُس دور میں بے عملی یا بدعملی کے ساتھ ایمان کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس کے برعکس آج کے دور میں ایمان صرف زبانی جمع خرچ کا نام رہ گیا ہے اور ایمان کے دعوے دار کا دامن عمل صالح سے خالی ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایسے اعمال کرتا ہے۔ مثلاً راست بازی، امانت و دیانت، ہمدردی و غمگساری مگرایمان کی دولت سے محروم ہے تو اس کے یہ اعمال دنیا میں تو اس کی شہرت، عزت اور نیک نامی کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ مگر آخرت میں اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدرو قیمت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ان کا سرچشمہ ایمان نہیں بلکہ دنیاوی مفادات اور اخلاق و عادات ان کی بنیاد ہے۔ گھنی، گہری عمدہ چھاؤں جسے ترجمہ میں پوری راحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ اتنا ہے کہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کرسکے گا۔ یہ شجرۃ الخلد ہے ۔‘‘ (بخاری: ۳۲۵۱، مسلم: ۲۸۲۶)