وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا
اور یہ کہ بے شک ہم نے آسمان کو ہاتھ لگایا تو ہم نے اسے اس حال میں پایا کہ وہ سخت پہرے اور چمکدار شعلوں سے بھر دیا گیا ہے۔
یعنی ستاروں كا بكثرت گرنا، جنات كا ان سے ہلاك ہونا، آسمان كی حفاظت كا بڑھ جانا، ان كا آسمان كی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر كا باعث بنا كہ وہ نكل كھڑے ہوئے اور انھوں نے ہر طرف تلاش شروع كر دی كہ كیا وجہ ہے جو ہمارا آسمان پر جانا موقوف ہو گیا ہے؟ چنانچہ ان میں سے ایك جماعت كا گزر عرب میں ہوا اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو صبح كی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے كہ اس نبی كی بعثت اور اس كلام كا نزول ہی ہماری بندش كا سبب ہے۔ پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہوگئے باقی اور جنات كو ایمان نصیب نہ ہوا۔ حَرَسٌ بمعنی چوكیدار، نگران، ’’ شُہُبٌ‘‘ یہ شہابٌ (شعلہ) كی جمع ہے۔ یعنی آسمانوں پر فرشتے چوكیداری كرتے ہیں تاكہ آسمانوں كی كوئی بات كوئی اور نہ سن لے، اور یہ ستارے آسمان پر جانے والے شیاطین پر شعلہ بن كر گرتے ہیں۔