وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا
اور یہ کہ بلاشبہ بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑتے تھے تو انھوں نے ان ( جنوں) کو سرکشی میں زیادہ کردیا۔
انسانوں كا جنوں سے پناہ مانگنا: عہد جاہلیت میں اكثر لوگ یہ عقیدہ ركھتے تھے كہ غیر آباد جگہ جنوں كا مسكن ہوتا ہے اور ان میں بھی انسانوں كی طرح بعض جن دوسروں كے سردار اور بادشاہ ہوتے ہیں جو ان پر حكومت كرتے ہیں اور اگر كسی انسان كا ایسے علاقہ سے گزر ہو اور اس جن كی پناہ مانگے بغیر اس جگہ میں رہائش پذیر ہو جائے جس كے قبضہ میں یہ غیر آباد جگہ ہے تو وہ حاكم جن ایسے انسانوں یا انسان كو علاقہ غیر میں داخل ہونے كی بنا پر سزا دینے اور تكلیف پہنچانے كا حق ركھتا ہے۔ خواہ وہ خود ایسی سزا دے یا اپنے ماتحت جنوں سے دلوا دے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں كہ جاہلیت كے زمانہ میں عرب جب كسی سنسان وادی میں رات گزارتے تو پكار كر كہتے كہ ہم اس وادی كے مالك جن كی پناہ مانگتے ہیں گویا انسان كی اوہام پرستی كا یہ عالم تھا كہ اللہ نے تو اسے اشرف المخلوقات اور جنوں سے بھی افضل پیدا كیا تھا۔ لیكن اس زمین كے خلیفہ انسان نے الٹا جنوں سے ڈرنا اور ان سے پناہ مانگنا شروع كر دیا، جس كا نتیجہ یہ ہوا كہ جنوں كا دماغ اور زیادہ خراب ہوگیا۔ اور وہ واقعی اپنے آپ كو انسان سے افضل سمجھنے لگے۔