فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا
تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔
ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے كہ استغفار كا دنیا میں بھی یہ فائدہ ہوتا ہے كہ اس سے تنگ دستی اور كئی دوسری پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے ایك شخص نے قحط كا شكوہ كیا۔ دوسرے نے محتاجی كا اور تیسرے نے اولاد نہ ہونے كا تو آپ نے ان تینوں كو استغفار كا حكم دیا كسی نے كہا كہ ان كے شكوے تو الگ الگ ہیں، لیكن آپ ہر ایك كو استغفار كا ہی حكم دے رہے؟ اس كے جواب میں آپ نے یہی آیات (۱۰ تا ۱۲) پڑھ كر اسے مطمئن كر دیا۔ بعض علماء تو كہتے ہیں كہ ہر مقصد كے حصول كے لیے اللہ كے حضور استغفار كرنا چاہیے۔ چنانچہ ایك دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش كی دعا كرنے كے لیے باہر نكلے اور صرف استغفار کرنے پر اكتفا كیا كسی نے عرض كیا: امیرالمومنین! آپ نے بارش كے لیے دعا تو كی ہی نہیں؟ فرمایا میں نے آسمان كے ان دروازوں كو كھٹكھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے۔ پھر آپ نے سورئہ نوح كی یہی آیات لوگوں كو پڑھ كر سنا دیں۔