وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور وہ عورتیں جو تمھاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہوچکی ہیں، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔
مسائل عدت: یعنی جو عورتیں اتنی بوڑھی ہو چكی ہوں اور انھیں حیض آنا بند ہو چكا ہو، یا وہ نابالغ لڑكیاں جنھیں ابھی حیض آنا ہی شروع نہ ہوا ہو۔ ایسی سب عورتوں كی عدت تین ماہ ہے، اور یہ اس دن سے شروع ہو جائے گی، جس دن سے اسے طلاق دی گئی اور تین ماہ قمری شمار ہوں گے شمسی نہیں۔ اس آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا كہ نابالغ بچیوں كی شادی بھی جائز ہے اور ان سے صحبت كرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح جن بڑی عورتوں كو بھی حیض نہ آیا ہو یا اتنی بوڑھی ہو چكی ہوں كہ ان كا حیض بند ہو چكا ہو ان سے بھی صحبت كرنا جائز ہے۔ عورت مطلقہ ہو یا بیوہ یعنی اس كا خاوند فوت ہو جائے اس كی عدت وضع حمل تك ہوگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ سورئہ بقرہ كی آیت اور اس آیت كو ملا كر ان كا فتویٰ یہ ہے كہ ان دونوں میں جو زیادہ دیر میں ختم ہو وہ عدت یہ گزارے۔ یعنی اگر بچہ تین مہینے سے پہلے پیدا ہوگیا تو تین مہینے كی عدت ہے اور تین مہینے گزر چكے اور بچہ نہیں ہوا تو بچے كے ہونے تك عدت ہے۔ (بخاری: ۴۹۰۹، مسلم: ۱۴۸۴)