سورة الطلاق - آیت 2

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوجاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کے لیے قائم کرو۔ یہ وہ (حکم) ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عائلی قوانین: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ عدت والی عورتوں كی عدت جب پوری ہونے كے قریب پہنچ جائے تو ان كے خاوندوں كو چاہیے كہ وہ دو باتوں میں سے ایك كر لیں یا تو انھیں بھلائی كے ساتھ اور سلوك كے ساتھ اپنے ہی نكاح میں روك لیں۔ یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع كر كے باقاعدہ اس كے ساتھ بود وباش ركھیں یا انہیں طلاق دے دیں، لیكن برا بھلا كہے بغیر، گالی گلوچ دئیے بغیر، اچھائی اور خوبصورتی كے ساتھ (یہ یاد رہے كہ رجعت كا اختیار اس وقت ہے جب ایك یا دو طلاق ہوئی ہوں) پھر فرمایا: اگر رجعت كا ارادہ كرو تو اس پر دو عادل مسلمان گواہ ركھ لو۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے دریافت كیا گیا كہ ایك شخص اپنی بیوی كو طلاق دیتا ہے پھر اس سے رجوع كرتا ہے، نہ طلاق پر گواہ ركھتا ہے اور نہ رجعت پر، تو آپ نے فرمایا كہ اس نے خلاف سنت طلاق دی۔ اور خلاف سنت رجوع كیا، طلاق پر بھی گواہ ركھنا چاہیے اور رجعت پر بھی، اب دوبارہ ایسا نہ كرنا۔ (ابوداود: ۲۱۸۶) جو اللہ سے ڈرتا ہے: یعنی جو شخص احكام خدا بجا لائے، اس كی حرام كردہ چیزوں سے پرہیز كرے اللہ تعالیٰ اس كے لیے مخلصی پیدا كر دیتا ہے یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نكلنے كی سبیل پیدا كر دے گا۔