سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ان پر برابر ہے کہ تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرے، یا ان کے لیے بخشش کی دعا نہ کرے، اللہ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، بے شک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین كے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ لیكن اس كا حكم عام ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جس كی موت كفر ونفاق پر ہو وہ اس آیت کے مصداق میں شامل ہے۔ شان نزول: جب عبداللہ بن ابی كا انتقال ہوگیا تو اس كے بیٹے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (جو مسلمان اور باپ ہی كے ہم نام تھے) درخواست كی كہ ایك تو آپ (بطور تبرك) اپنی قمیض عنایت فرما دیں تاكہ میں اپنے باپ كو اس میں كفنا دوں۔ دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس كی نماز پڑھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیض بھی عنایت فرما دی اور نماز جنازہ پڑھانے كے لیے بھی تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےكہا كہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو ایسے لوگوں كی نماز جنازہ پڑھانے سے روكا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كیوں اس كے حق میں دعائے مغفرت كرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے یعنی روكا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے كہ ’’اگر تو ستر مرتبہ بھی ان كے لیے استغفار كرے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں فرمائے گا۔ تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان كے لیے استغفار كر لوں گا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھا دی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما كر آئندہ كے لیے منافقین كے حق میں دعائے مغفرت كی قطعی ممانعت فرما دی۔ (بخاری: ۴۹۰۳) اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا: اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایك یہ كہ دعائے مغفرت بھی صرف ان لوگوں كے لیے ہی قبول ہوگی یا ہو سكتی ہے جو خود بھی ہدایت كے راستے پر چلنا چاہتے ہوں یا چل رہے ہوں، خواہ دعائے مغفرت كرنے والے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی كیوں نہ ہوں۔ دوسری یہ كہ جو لوگ اللہ كی نافرمانی كی روش اختیار كیے ہوئے ہوں انہیں اللہ زبردستی راہ ہدایت پر نہیں لایا كرتا۔