يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے مددگار بن جاؤ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے کفر کیا، پھر ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے تھے، ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب ہوگئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام كے حواری: اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں كو حكم دیتا ہے كہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان ومال، عزت وآبرو، قول وفعل، نقل وحركت، دل وزبان سے اللہ اور اس كے رسول كی تمام تر باتوں كی تعمیل میں رہیں پھر مثال دیتا ہے كہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام كے تابعداروں كو دیكھو كہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام كی آواز پر فوراً لبیك پكار اٹھے اور ان كے اس كہنے پر كہ كوئی ہے جو اللہ كی باتوں میں میری امداد كرے۔ انھوں نے بلاتأمل فوراً كہہ دیا كہ ہم سب آپ كے ساتھی ہیں اور دین اللہ كی امداد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے تابع ہیں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین اللہ كی تبلیغ كے لیے كھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل كے كچھ لوگ تو راہ راست پر آگئے اور كچھ لوگ نہ آئے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام حج میں فرماتے کہ، ’’كون ہے جو مجھے پناہ دے تاكہ میں لوگوں تك اللہ كا پیغام پہنچا سكوں، اس لیے كہ قریش مجھے فریضۂ رسالت ادا كرنے نہیں دیتے۔ (احمد: ۳/ ۳۲۲) حتیٰ كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی اس پكار پر مدینے كے اوس وخزرج نے لیبك كہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ہاتھ پر انھوں نے بیعت كی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی مدد كا وعدہ كیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو یہ پیش كش كی كہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت كر كے مدینہ آجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی حفاظت كی ذمہ داری ہم قبول كرتے ہیں، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت كر كے مدینہ تشریف لے گئے تو وعدے كے مطابق انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے تمام ساتھیوں كی پوری طرح مدد كی۔ حتیٰ كہ اللہ اور اس كے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كا نام ہی انصار ركھ دیا۔ اور اب یہ ان كا علم بن گیا۔ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَاَرْضَاہُمْ. (ابن كثیر) ایك جماعت نے كفر كیا: یہ یہود تھے جنھوں نے نبوت عیسیٰ علیہ السلام كا انكار ہی نہیں كیا بلكہ ان پر اور ان كی والدہ پر بہتان تراشی بھی كی۔ بعض كہتے ہیں كہ یہ اختلاف و تفریق اس وقت ہوا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام كو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ایك نے كہا كہ عیسیٰ علیہ السلام كی شكل میں اللہ نے ہی زمین پر ظہور فرمایا تھا۔ اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا ہے یہ فرقہ یعقوبیہ كہلاتا ہے۔ نسطوریہ فرقے نے كہا كہ وہ ابن اللہ تھے، باپ نے بیٹے كو آسمان پر بلا لیا ہے تیسرے فرقے نے كہا وہ اللہ كے بندے اور اس كے رسول تھے۔ یہی فرقہ صحیح تھا۔ مومنوں كی مدد: یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم كو مبعوث فرما كر اسی آخری جماعت كی، دوسرے باطل گروہوں كے مقابلے میں مدد كی۔ چنانچہ یہ صحیح عقیدے كی حامل جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئی اور یوں ہم نے ان كو دلائل كے لحاظ سے بھی سب كافروں پر غلبہ عطا كیا اور قوت وسلطنت كے اعتبار سے بھی۔ اس غلبے كا آخری ظہور اس وقت پھر ہوگا جب قیامت كے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام كا دوبارہ نزول ہوگا۔ جیسا كہ اس كے نزول اور غلبے كی صراحت احادیث صحیحہ میں تواتر كے ساتھ منقول ہے۔ الحمد للہ سورئہ الصف كی تفسیر مكمل ہوئی۔