وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے۔
یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام كا قصہ بیان فرمایا جا رہا ہے كہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام كی نافرمانی كی۔ اسی طرح انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام كا بھی انكار كیا۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو تسلی دی جا رہی ہے كہ یہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ ہی اس طرح نہیں كر رہے ہیں بلكہ ان كی تو ساری تاریخ ہی انبیاء علیہم السلام كی تكذیب سے بھری پڑی ہے۔ تورات كی تصدیق: مطلب یہ ہے كہ جو دعوت میں دے رہا ہوں وہ وہی ہے جو تورات كی بھی دعوت ہے جو اس بات كی دلیل ہے كہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے كر آئے اور اب میں انجیل لے كر آیا ہوں ہم دونوں كا اصل ماخذ ایك ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ وہارون اور داؤد وسلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے تھے، مجھ پر بھی ایمان لاؤ اس لیے كہ میں تورات كی تصدیق كر رہا ہوں نہ كہ اس كی تردید وتكذیب۔ ایك رسول كی بشارت دینے والا ہوں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی خوشخبری سنائی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے باپ (حضرت) ابراہیم( علیہ السلام ) كی دعا اور عیسیٰ( علیہ السلام ) كی بشارت كا مصداق ہوں۔‘‘ ’احمد‘ اگر یہ فاعل اور مبالغے كا صیغہ ہو تو معنی ہوں گے، دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ حمد كرنے والا، اور اگر یہ مفعول کا صیغہ ہو تو معنی ہوں گے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی خوبیوں اور كمالات كی وجہ سے جتنی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی کی گئی اتنی كسی اور كی بھی نہیں كی گئی۔ (فتح القدیر) یہ تو كھلا جادو ہے: یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام كے پیش كردہ معجزات كو جادو سے تعبیر كیا، جس طرح گزشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں كو اسی طرح كہتی رہی ہیں۔