يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقیناً انھوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمھارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو، جو تمھارا رب ہے، اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو۔ تم ان کی طرف چھپا کر دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں زیادہ جاننے والا ہوں جو کچھ تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرے تو یقیناً وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
كفار مكہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا۔ اہل مكہ نے اس كی خلاف ورزی كی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں كو خفیہ طور پر لڑائی كی تیاری كا حكم دے دیا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایك مہاجر صحابی تھے۔ جن كی قریش كے ساتھ كوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ لیكن ان كے بیوی بچے مكہ میں ہی تھے۔ انھوں نے سوچا كہ میں قریش مكہ كو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی تیاری كی اطلاع كر دوں۔ تاكہ اس احسان كے بدلے وہ میرے بیوی بچوں كا خیال ركھیں۔ چنانچہ انھوں نے ایك عورت كے ذریعے سے یہ پیغام تحریری طور پر اہل مكہ كی طرف روانہ كر دیا، جس كی اطلاع بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو كر دی گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت مقداد اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم كو فرمایا كہ جاؤ، روضہ خاخ پر ایك عورت ہوگی جو مكہ جا رہی ہوگی۔ اس كے پاس ایك رقعہ ہے وہ لے آؤ، چنانچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر كے بالوں میں چھپا ركھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھا یہ تم نے كیا كیا؟ انھوں نے فرمایا كہ میں نے یہ كام كفر وارتداد كی بنا پر نہیں كیا، بلكہ اس كی وجہ یہ ہے كہ دیگر مہاجرین كے رشتے دار مكے میں موجود ہیں جو ان كے بال بچوں كی حفاظت كرتے ہیں، میرا وہاں كوئی بھی رشتے دار نہیں ہے تو میں نے سوچا كہ میں اہل مكہ كو كچھ اطلاع كر دوں، تاكہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں كی حفاظت كریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كی سچائی كی وجہ سے انھیں كچھ نہیں كہا۔ تاہم اللہ نے تنبیہ كے طور پر یہ آیات نازل فرما دیں۔ تاكہ آئندہ كوئی مومن كسی كافر كے ساتھ اس طرح كا تعلق مودت قائم نہ كرے۔ (صحیح بخاری: ۴۲۷۴، مسلم: ۲۴۹۴) تمہیں جلا وطن كرتے ہیں: یعنی كفار نے تمہاری زندگی اجیرن كر ركھی تھی كہ تم ترك وطن پر مجبور ہوگئے اور تمہارا ان سے یہ سلوك كہ تم ان كے لیے جنگی راز تك فاش كر ڈالتے ہو تم مسلمانوں كے اجتماعی مفادات تك كو بھی نظر انداز كر رہے ہو تم نے ان كا كچھ نہ بگاڑا تھا۔ ان كی نظروں میں اگر تمہارا كچھ جرم تھا تو صرف اتنا كہ تم اللہ پر ایمان لے آتے تھے۔ خفیہ دوستی كے نام وپیام: یعنی اگر تم میری رضا كی خاطر اس مہم میں شریك ہو رہے ہو تو كیا یہ كام تم نے میری رضا كے مطابق كیا ہے یا اس كے خلاف۔ اللہ تعالیٰ كے اس عتاب سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ كو ان (حاطب) پر غصہ آیا تھا اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا حاطب كو قتل كرنے كی اجازت مانگی تھی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ كو اس لیے معاف كر دیا كہ ان كی نیت میں كوئی فتور نہ تھا۔ نیز ایسے راز فاش كر دینے كے نتائج سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ اور اس بنا پر بھی كہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں كو سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ كے اس فعل كے برے نتائج سے بچا لیا تھا۔ چھپے، ظاہر كو اللہ جانتا ہے: كیا تم سمجھتے ہو كہ تم نے نہایت راز داری سے كوئی خط قریش مكہ كو بھیجا ہے تو اللہ كو بھی اس كا علم نہ ہوگا؟ اور تمہاری اتنی فاش غلطی كو وہ چھپا ہی رہنے دے گا؟ اللہ تعالیٰ عالم الغیب سے كوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ گمراہی كا راستہ: یعنی میرے اور اپنے دشمنوں سے محبت كا تعلق جوڑنا، اور انھیں خفیہ نام وپیام بھیجنا، یہ گمراہی كا راستہ ہے جو كسی مسلمان كے شایان شان نہیں ہے۔