مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، تاکہ وہ تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
یہ فے كا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہوگا، یہی مال غنیمت كے مال صرف كرنے كی بھی ہیں۔ اور سورئہ انفال میں ان كی پوری تشریح بیان ہو چكی ہے پھر فرمایا كہ یہ مال داروں كے ہاتھ لگ كر كہیں ان كا لقمہ نہ بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں كے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسكینوں كے ہاتھ نہ لگے۔ رسول جو دے وہ لے لو: كہ جس كام كو میرے پیغمبر تم سے كہیں تم اسے كرو اور جس كام سے وہ تمہیں روكیں تم اس سے رك جاؤ، یقین مانو كہ جس كا وہ حكم كرتے ہیں وہ بھلائی كا حكم ہوتا ہے اور جس سے وہ روكتے ہیں وہ برائی ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے كہا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی، گدوانے والی خوبصورتی كے لیے چہرے كے بال اكھاڑنے والی اور دانتوں كو جدا كرنے والی، بالوں میں بال ملانے والی عورتوں پر لعنت كی ہے۔ جو اللہ كی خلقت كو بدلتی ہیں۔ یہ حدیث ایك عورت كو پہنچی جس كی كنیت ام یعقوب تھی وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كے پاس آكر كہنے لگی مجھے یہ خبر پہنچی ہے كہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت كی ہے‘‘ انھوں نے كہا: ’’ہاں‘‘ میں تو اس پر ضرور لعنت كروں گا جس پر نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت كی ہے اور اللہ كی كتاب میں اس پر لعنت آئی ہے۔ اس عورت نے كہا: میں نے تو سارا قرآن جو دو تختیوں میں ہے پڑھ ڈالا ہے اس میں تو كہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی۔آپ نے كہا اگر تو نے (اچھی طرح) قرآن پڑھا ہوتا تو ضرور یہ مسئلہ پا لیتی۔ كیا تو نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا كہ پیغمبر جس بات كا تمہیں حكم دیں اس پر عمل كرو اور جس بات سے منع كریں اس سے باز رہو؟ اس نے كہا: ہاں یہ آیت تو قرآن میں موجود ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كہنے لگے: اگر میری بیوی ایسے كام كرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سكتی تھی؟ (بخاری: ۴۸۸۶، مسلم: ۱۳۳۱) نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم میں ایك پیٹ بھرا شخص اپنے پلنگ پر تكیہ لگائے میری حدیثیں سن كر یہ كہے گا كہ ہمارے درمیان قرآن (كافی) ہے۔ اس كے حلال كیے ہوئے كو حلال اور حرام كیے ہوئے كو حرام سمجھو۔ یاد ركھو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس كے ساتھ اس كی مثل اور بھی۔ (ترمذی: ۲۲۱۳، ابوداود: ۲۸۱۹) واضح رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت پر عمل پیرا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے كہ اس كے بغیر قرآن كے احكام بھی كسی صورت بجا لائے نہیں جا سكتے۔ لہٰذا جو شخص سنت یا حدیث كی حجیت كا قائل نہ ہو وہ حقیقتاً قرآن كا بھی منكر ہوتا ہے بلكہ اسے بننا پڑتا ہے۔ پھر فرماتا ہے، اللہ كے عذابوں سے بچنے كے لیے اس منہیات سے بچتے رہو۔ یاد ركھو كہ اس كی نافرمانی، مخالفت اور انكار كرنے والوں اور اس كے منع كیے ہوئے كاموں كے كرنے والوں كو وہ سخت سزا دیتا ہے دكھ كی مار مارتا ہے۔