مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مخلص مسلمانوں کے لیے بڑے صبر آزما تھے، چار قسم کے دشمن مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ ایک قریش مکہ (۲) اس مدینہ کے اردگرد کے قبائل (۳) یہود مدینہ (۴) اور منافقین جو ہر دشمن اسلام قوت سے اندرونی ساز باز رکھتے تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری مشکلات اور مصائب سے بے خبر ہیں بلکہ زمین میں جو بھی حادثہ پیش آتا ہے یا تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے اسے ہم اس کے وقوع سے پہلے سے ہی جانتے ہیں کیونکہ نوشتہ تقدیر میں یہ سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے اور تمہیں ایسے حالات سے گزارنا اس لیے ضروری تھا کہ مومنوں اور منافقوں کا امتیاز کھل کر سامنے آجائے۔ ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قحط، سیلاب اور دیگر آفات ارضی وسماوی، اور جانوں کی مصیبت دکھ درد اور بیماری ہے یا جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے کہ یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جو وہ غفور الرحیم بخش دیتا ہے۔ (تفسیر طبری: ۲۳/ ۱۹۶) حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔ (مسلم: ۲۶۵۳)