سورة الحديد - آیت 21

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے، وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مغفرت کی جستجو: دوڑو اپنے رب کی بخشش اور مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کے برابر ہے۔ سورئہ آل عمران: (۱۳۳) میں فرمایا: ﴿وَ سَارِعُوْا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ﴾ ’’دوڑو اس جنت کی طرف جس کا عرض تمام آسمانوں اور زمین کے عرض کے برابر ہے۔‘‘ حالانکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی لاکھوں میل کا فاصلہ ہے۔ یہاں جنت کا رقبہ بتانا مقصود نہیں۔ مقصود صرف جنت کی وسعت کا تصور دلانا ہے کہ یہ جو زمین وآسمان تو تم دیکھ ہی رہے ہو جنت ان آسمانوں اور زمینوں سے بھی بہت بڑی ہے۔ لہٰذا تم دنیا کی بجائے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اگر تم سچے دل سے اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو تمہارے گناہ اور لغزشیں بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا اور اتنی وسیع وعریض جنت بھی عطا فرمائے گا۔ حدیث میں ہے کہ مہاجرین کے فقراء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، یا رسول اللہ! مالدار لوگ تو جنت کے بلند درجوں اور ہمیشگی والی نعمتوں کو پا گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیسے؟ تو کہا کہ نماز روزہ تو وہ اور ہم سب کرتے ہیں۔ لیکن مال کی وجہ سے وہ صدقہ کرتے ہیں، غلام آزاد کرتے ہیں جو مفلسی کی وجہ سے ہم سے نہیں ہو سکتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں کہ اس کے کرنے سے تم ہر شخص سے آگے بڑھ جاؤ گے، مگر ان سے جو تمہاری طرح خود بھی اس کو کرنے لگیں دیکھو تم ہرفرض نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ کہو اور اتنی ہی بار الحمد للہ اور اسی طرح اللہ اکبر۔ کچھ دنوں بعد یہ بزرگ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! ہمارے مال دار بھائیوں کو بھی اس وظیفہ کی اطلاع مل گئی اور انھوں نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔ (بخاری: ۸۴۳۔ مسلم: ۵۹۵) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ کسی شخص کا عمل اس کو بہشت میں نہیں لے جائے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے اعمال بھی آپ کو بہشت میں نہیں لے جا سکیں گے۔ فرمایا: ہاں میرے اعمال بھی۔ الا یہ کہ اللہ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے۔ (بخاری: ۲۶۱۱)