يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
وہ انھیں آواز دیں گے کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں اور لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم انتظار کرتے رہے اور تم نے شک کیا اور (جھوٹی) آرزوؤں نے تمھیں دھوکا دیا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور اس دغاباز نے تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا دیا۔
دیوار میں ایک دروازہ ہوگا: اس دیوار میں ایک دروازہ ہوگا اب یہاں سے منافق مومنوں کو پکار پکار کر کہیں گے کہ دنیا میں تو ہم نے تمہارا ساتھ دیا تھا اور آج تم لوگ ہمیں یہاں چھوڑ کر اکیلے ہی جنت کی طرف جا رہے ہو تمہیں ہم سے ایسی بے وفائی تو نہ کرنی چاہیے تھی۔ مومنوں کا جواب: مومن اس بات کا یہ جواب دیں گے کہ تم جھوٹ بکتے ہو جو یہ کہتے ہو کہ ہم نے تمہارا ساتھ دیا تھا اس کی بجائے اصل بات یہ تھی کہ تم لوگ موقع پرست اور مفاد پرست تھے تم نے اپنے دلوں میں کفر ونفاق چھپا رکھا تھا کہ شاید مسلمان کسی گردش کا شکار ہو جائیں۔ تم شک میں پڑے ہوئے تھے: یعنی تمہارا نہ اللہ پر ایمان پختہ تھا، نہ اس کے رسول پر، نہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر اور نہ آخرت پر۔ پھر تم یہ بھی سوچتے کہ آخرت میں اپنے اعمال کی جزا وسزا والا معاملہ بھی یقینی ہے یا نہیں۔ لہٰذا تم صرف ظاہری طور پر ہمارے ساتھ تھے لیکن تمہاری ساری ہمدردیاں اور دلچسپیاں کافروں کے ساتھ رہیں۔ اللہ کا حکم: اللہ کے حکم سے مراد اسلام کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے اور موت بھی۔ یعنی جہاں تک تمہارا بس چلتا رہا تم نے اپنے اس رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ تم یہ سمجھتے رہے کہ ہمارا مسلمانوں کو اندھیرے میں رکھ کر اور انھیں دھوکا دے کر اپنے مفادات حاصل کرلینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ تم خود شیطان کے ہتھے چڑھے ہوئے تھے اور مرتے دم تک اس نے تمہیں اسی دھوکے میں مبتلا رکھا کہ اب کوئی دن میں مسلمان تباہ ہوتے ہیں اور اسلام مٹ جاتا ہے۔