لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کیے ہوئے ہیں۔
پاکیزہ لوگوں سے مراد: اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں، یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت ہے وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں، کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہو سکتی جیسا کہ ﴿وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ﴾ اسے نہ تو شیطان لے کر اترے ہیں، نہ ان کے یہ لائق ہے نہ ان کی یہ مجال، بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین ومطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہو سکتی ہے، جن کے خیالات پاکیزہ ہوں کفر وشرک کے تعصبات سے پاک ہوں عقل صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں جن کے خیالات ہی گندے ہوں تو قرآن کریم کے بلند پایہ مضامین ومطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا چاہیے مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے۔