سورة الرحمن - آیت 78

تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بہت برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

وہی مستحق احترام واکرام ہے۔ تَبٰرَكَ، برکت سے ہے جس کے معنی دوام واثبات کے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس کا نام ہمیشہ رہنے والا ہے یا اس کے پاس خیر کے خزانے ہیں۔ پروردگار کا ذاتی نام اللہ ہے اور رحمن ذاتی بھی ہے اور صفاتی بھی اللہ کے باقی سب نام صفاتی ہیں۔ ان میں سے ذوالجلال والاکرام بڑا بابرکت صفاتی نام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی بڑا بزرگی والا اور عزت والا ہے۔ اور دوسروں کو عزت عطا کرنے والا اور ان پر لطف واحسان کرنے والا ہے جیسا کہ اہل جنت پر اس کے لطف واحسان کا ذکر ان آیات میں آیا ہے۔ پھر جب اس کا نام ہی بڑا بابرکت ہے تو اس کی ذات مقدس کس قدر بابرکت ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پہلے اللہ اکبر پھر تین بار استغفر اللہ کہتے۔ پھر اس کے بعد یہ ذکر فرماتے: (اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ) (مسلم: ۵۹۲) پس اے جن وانس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ یہ آیت اس سورت میں (۳۱) مرتبہ آئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی اقسام و انواع کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ استفسار فرمایا ہے حتیٰ کہ میدان محشر کی ہولناکیوں اور جہنم کے عذاب کے بعد بھی یہ استفسار فرمایا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ امور آخرت کی یاد دہانی بھی نعمت عظیمہ ہے تاکہ بچنے والے اس سے بچنے کی سعی کر لیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جن بھی انسانوں کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے بلکہ انسانوں کے بعد یہ دوسری مخلوق ہے جسے عقل وشعور سے نوازا گیا ہے۔ اور اس کے بدلے میں صرف ان سے اس امر کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ ایک کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ مخلوقات میں یہی دو ہیں۔ جو شرعی احکام و فرائض کے مکلف ہیں، اسی لیے انھیں ارادہ اور اختیار کی آزادی دی گئی ہے تاکہ ان کی آزمائش ہو سکے۔ تیسرے نعمتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ومستحب ہے۔ یہ زہد وتقویٰ کے خلاف ہے نہ تعلق مع اللہ میں مانع۔ جیسا کہ بعض اہل تصوف باور کراتے ہیں۔ چوتھے بار بار یہ سوال کہ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے تو یہ تنبیہ اور تہدید کے طور پر ہے جس کا مقصد اس اللہ کی نافرمانی سے روکنا ہے۔ جس نے یہ ساری نعمتیں پیدا کیں اور مہیا فرمائیں اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں یہ پڑھنا پسند فرمایا: ’’اے ہمارے رب! ہم تیری کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کرتے پس تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔ (ترمذی: ۳۲۹۲) لیکن اندرون صلاۃ اس کا پڑھنا مشروع نہیں۔ الحمد للہ سورئہ الرحمن کی تفسیر مکمل ہوئی۔