وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
اور یتیموں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھداری معلوم کرو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور فضول خرچی کرتے ہوئے اور اس سے جلدی کرتے ہوئے انھیں مت کھاؤ کہ وہ بڑے ہوجائیں گے۔ اور جو غنی ہو تو وہ بہت بچے اور جو محتاج ہو تو وہ جانے پہچانے طریقے سے کھالے، پھر جب ان کے مال ان کے سپرد کرو تو ان پر گواہ بنا لو اور اللہ پورا حساب لینے والا کافی ہے۔
یتیموں کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمایا جارہا ہے کہ (۱) نادان یتیم کو دولت قبضہ میں نہ دی جائے۔ (۲)جب مال کے صحیح طور پر استعمال کی اہلیت آجائے۔ تب اس کا مال اس کے حوالے کیا جائے اور یہ اہلیت معلوم کرنے کے لیے سرپرست کو اس کا تجربہ کرتے رہنا چاہیے کہ آیا وہ کفایت شعار ہے یا فضول خرچ، سرپرست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اُس کے مال کی حفاظت کرے۔ اس ڈر سے جلدی جلدی خرچ نہ کیا جائے کہ وہ بڑا ہوکر اپنا مال واپس مانگے گا۔ اور جب اس مال کو واپس کیا جائے تو گواہ کرلینے ضروری ہیں۔ امیر سرپرست یتیم کی کفالت بغیر حصہ لیے ہوئے کرے اور اگر غریب سرپرست ہے تو ضرورت کے مطابق یتیم کے مال سے خدمت کا حصہ لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حساب لینے والا ہے اور وہ سب معاملات دیکھ رہا ہے۔ اس لیے ولی احتیاط سے یتیم کے حق کو ادا کرے گا اور اگر ایسا نہ کرسکا تو پھر اللہ تعالیٰ تو حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’ابوذر ! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا، نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سرپرست ہی بننا۔‘‘ (مسلم: ۱۸۲۶)