وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو، پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمھارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہوجائیں تو اسے کھالو، اس حال میں کہ مزے دار، خوشگوار ہے۔
مہر عورت کا ذاتی حق ہے۔ یہ خود وصول کرے گی، مہر مقرر کرنا ضروری ہے۔ اور مرد خوش دلی سے اس کو ادا کرے۔ اگر عورت اپنی مرضی سے کچھ حصہ لوٹا دے تو جائز ہے پھر مرد اس کو کھا سکتا ہے۔ مہر کا تعین: مہر مرد کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’عورتوں کا مہر بڑھ چڑھ کر نہ باندھا کرو کیونکہ اگر مہر بڑھادینے میں کوئی عزت کی بات ہوتی یا اللہ کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے۔ اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ نے اپنی کسی بیوی یا بیٹی کا حق مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ باندھا ہو۔ (ابن ماجہ: ۱۸۸۷)