سورة الرحمن - آیت 33

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے جن و انس کی جماعت! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، کسی غلبے کے سوا نہیں نکلو گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ تہدید بھی نعمت ہے كہ اس سے بدکار بدكاریوں سے باز آجائے اور محسن زیادہ نیكیاں كمائے، یعنی اللہ كی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ كر كہیں جا سكتے ہو تو چلے جاؤ، لیكن یہ طاقت كس میں ہے، اور بھاگ كر آخر كہاں جاؤ گے، كون سی جگہ ایسی ہے جو اللہ كے اختیار سے باہر ہو جہاں جاؤ گے اسی كی سلطنت ہے۔ حقیقتاً یہ واقع ہوگا میدان محشر میں كہ مخلوقات كو ہر طرف سے فرشتے احاطہ كیے ہوئے ہوں گے چاروں جانب ان كی سات سات صفیں ہوں گی كوئی شخص بغیر دلیل كے ادھر سے ادھر نہ ہو سكے گا۔ اور دلیل سوائے امر الٰہی حكم خدا كے اور كچھ نہیں۔ انسان اس دن كہے گا كہ بھاگنے كی جگہ كدھر ہے؟ لیكن جواب ملے گا كہ آج تو رب كے سامنے ہی كھڑا ہونے كی جگہ ہے۔ جیسا كہ سورئہ یونس (۲۷) میں ہے: ﴿وَ الَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ﴾ ’’برائیاں كرنے والوں كو ان كی برائیوں كے مانند سزا ملے گی، ان پر ذلت سوار ہوگی اور اللہ كی پكڑ سے پناہ دینے والا كوئی نہ ہوگا۔ ان كے منہ مثل اندھیری رات كے ٹكروں كے ہوں گے یہ جہنمی گروہ ہے جو ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا۔‘‘ (تفسیر طبری: ۲۲/ ۵۴) پس تم اپنے رب كی كون كون سی نعمتوں كوجھٹلاؤ گے، یہ تہدید بھی ایك نعمت ہے۔