سورة آل عمران - آیت 191

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں، اے ہمارے رب! تو نے یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، سو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ان آخری دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرت اور طاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائیں ہیں۔ اور فرمایا یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے ہیں جو اس کارخانۂ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ کی بے پناہ قدرت و تعریف کی حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ دوسری آیت میں اہل دانش کا ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کھڑے ہوکر نماز پڑھو، اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو۔ (بخاری: ۱۱۱۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو فرماتے ’’تعریفیں تیرے لیے آسمانوں اور زمین کا نور، جو جو کچھ ان کے درمیان ہے، تمام تعریفیں تیرے لیے آسمان و زمین کے درمیان تمام چیزوں کو قائم رکھنے والا، اے اللہ! تیری ذات حق، بات حق، وعدہ حق تیری ملاقات حق، جنت حق، جہنم حق، قیامت برحق، سارے نبی برحق اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی حق پر ہیں۔ اے اللہ میں نے اپنا آپ تیرے سپرد کردیا، بھروسہ کیا، ایمان لایا۔ تیری طرف رجوع کیا۔ دشمن کا معاملہ تیرے سپرد۔ میری چھپی کھلی خطائیں معاف کردے، پہلے اور بعد تو ہی ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (بخاری: ۱۱۲۰) ایسے لوگ جو آسمان و زمین کی تخلیق پر غورو فکر کرتے ہیں۔ جن سے خالق کائنات کی عظمت و قدرت، اس کا علم و اختیار اور اس کی رحمت و ربوبیت کی، صحیح معرفت انھیں حاصل ہوتی ہے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ ’’رب کائنات نے یہ کائنات یوں ہی بے مقصد نہیں بنائی ہے۔ بلکہ اس سے مقصود بندوں کا امتحان ہے۔ جو امتحان میں کامیاب ہوگیا اس کے لیے ابدالّا باد تک جنت کی نعمتیں ہیں اور جو ناکام ہوگیا اس کے لیے عذاب نار ہے۔ اس لیے وہ عذاب نار سے بچنے کی دعا بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد کی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔