لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
یقیناً تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنھوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔
مال و جان سے آزمائش ضرور آئے گی، تمہیں تکلیف دہ باتیں سننا ہونگی، سننے میں بھی آزمائش ہے۔ کبھی خوشی کبھی دکھ ملتا ہے ۔ تم برداشت کرو یہ اس راستے کا حصہ ہیں ۔ تقویٰ اور صبر سے کام لو، ہر آزمائش انسان کو نکھارتی ہے، مشکل حالات میں چھپی ہوئی قوتیں سامنے آتی ہیں۔ جو چیزیں انسان آسائش میں یاد نہیں رکھتا وہ مصیبت یادکروادیتی ہے۔ جنت کا راستہ مشکلات کا راستہ ہے۔ خواہشات نفس کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ آزمائش دعوت حق کی سنت ہے۔ شعر تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کیلئے [اقبال] اس آیت میں آزمائش کے فوائد بتاکر مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ جس سے ابتداء سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں۔ مومن اور منافق پہچانے جاتے ہیں۔ یہود اور مشرکین کے ہاتھوں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہجرت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی مسلمانوں کی اور آپ کی زندگی بھی انہی لوگوں سے دکھ اٹھاتے گزری۔ اور مسلمانوں کو یہ خبراس لیے دی جارہی ہے کہ ذہنی طور پر مسلمان ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔