نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ
ہم اسے زیادہ جاننے والے ہیں جو یہ کہتے ہیں اور تو ان پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں، سو قرآن کے ساتھ اس شخص کو نصیحت کر جو میرے عذاب کے وعدے سے ڈرتا ہے۔
جیسے سورہ حجر( ۹۷) میں ارشاد ہے کہ: ﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ﴾ ’’واقعی ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں بتاتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہیں سوا اس کا علاج یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار کی پاکی اور تعریف کرتے رہیے اور نمازوں میں رہیے اور موت آ جانے تک اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیے۔‘‘ اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار مکہ کے لیے وعید اور دھمکی بھی۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری نہیں کہ زور اور زبردستی سے کسی کو ایمان لانے پر مجبور کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام اتنا ہی ہے کہ لوگوں کویہ قرآن سنا سنا کر نصیحت کریں پھر جس کے دل میں ذرا بھی اللہ کا خوف ہو گا وہ تو یقیناً اس نصیحت کو قبول کرے گا اور جو لوگ قرآن سننا بھی گوارا نہ کریں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کو سن کر یہ دعا کرتے تھے۔ ((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِمَّنْ یَّخَافُ وَعِیْدَکَ وَیَرْجُوْ مَوْعِدَکَ یَا بَارُّ یَا رَحِیْمُ) یعنی اے اللہ! تو ہمیں ان میں سے کر جو تیری سزاؤں کے ڈراوے سے ڈرتے ہیں اور تیری نعمتوں کے وعدے کی اُمید لگائے ہوئے ہیں۔ اے بہت احسان کرنے والے اور بہت زیادہ رحم کرنے والے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے۔ اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل میں ہی بر اجانے۔‘‘ (مسلم: ۴۹) الحمد للہ سورہ ق کی تفسیر ختم ہوئی۔