سورة الحجرات - آیت 12

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سوئے ظن سے پرہیز کرنا: ظن کے معنی گمان کرنا ہے۔ مطلب ہے کہ اہل خیر و اہل اصلاح و تقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جوبے اصل ہوں اور تہمت و افترا کے ضمن میں آتے ہوں اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’بد گمانی سے بچو، گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے، بھید نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ لگانے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو، حسد، بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (بخاری: ۶۰۶۶) صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو۔ ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کر لیا کرو ایک دوسرے کے حسد بغض نہ کیا کرو۔ بلکہ سب مل کر خدا کے بندے آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گزارو۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے۔ (مسلم: ۲۵۵۹) غیبت سے بچو: غیبت کی تعریف خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے، وہ یہ ہے ’’کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے برا معلوم ہو، تو کہا گیا اگر وہ بات اس میں ہو تب بھی؟ فرمایا ہاں غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے ( ابودأود: ۴۸۷۴) ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا تو ایسی ایسی ہیں۔ یعنی کم قامت تو حضور نے فرمایا تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے۔ (ابوداؤد: ۴۸۷۵) اور یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے۔ غیبت کو اللہ نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے متراف قرار دیا کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہوں اور مردہ اس لیے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجو دنہیں ہوتا۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو اور توبہ کرتے رہو۔ اللہ توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔