سورة آل عمران - آیت 170

فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس پر بہت خوش ہیں جو انھیں اللہ نے اپنے فضل سے دیا ہے اور ان کے بارے میں بھی بہت خوش ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ ان کے پیچھے سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی وہ اہل اسلام جو ان کے پیچھے دنیا میں زندہ ہیں یا جہاد میں مصروف ہیں۔ ان کے متعلق شہدا خواہش کرتے ہیں کہ وہ بھی شہید ہوکر ہم جیسی پُر لطف زندگی حاصل کریں۔ شہدائے اُحد نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو دنیا میں زندہ ہیں ان کو ہمارے حالات اور پُر مسرت زندگی سے کوئی مطلع کرنے والا ہے؟ تاکہ وہ جنگ و جہاد سے اعتراض نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں تمہاری بات ان تک پہنچا دیتا ہوں، اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں متعدد احادیث سے شہادت کی فضیلت ثابت ہے۔ (احمد: ۱/ ۲۶۸، ح: ۲۳۹۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی مرنے والی جان، جس کو اللہ کے ہاں اچھا مقام حاصل ہے ۔ دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتی۔ البتہ شہید دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرتا ہے۔ تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے یہ آرزو و ہ شہادت کی فضیلت کا مشاہدہ کرلینے سے کرتا ہے۔ (مسلم: ۱۸۷۷) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھ سے اپنی کسی خواہش کا اظہار کر (تاکہ میں اسے پورا کردوں) تیرے باپ نے جواب دیا کہ میری تو صرف یہی آرزو ہے کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ تو ممکن نہیں ہے اس لیے کہ میرا فیصلہ ہے۔ کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جاسکتا۔ (بخاری: ۲۸۱۶، مسلم: ۲۴۷۱)