سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
عنقریب پیچھے چھوڑ دیے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوں کی طرف چلو گے، تاکہ انھیں لے لو، ہمیں چھوڑو کہ ہم تمھارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ تو وہ ضرور کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ بلکہ وہ نہیں سمجھتے تھے مگر بہت تھوڑا۔
مال غنیمت کے طالب: غزوہ حدیبیہ کے تین ماہ بعد ۷ ہجری کو فتح خیبر کا واقعہ پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ جن لوگوں نے حدیبیہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا ساتھ نہ دیا۔ وہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو خیبر کی فتح کے موقعہ پر مال غنیمت سمیٹنے کے لیے جاتے ہوئے دیکھیں گے تو آرزو کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو۔ مصیبت کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے جبکہ راحت کو دیکھ کر شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انھیں ہرگز ساتھ نہ لینا جب یہ جنگ سے جی چرائیں تو پھر غنیمت میں حصہ کیوں لیں؟ اللہ تعالیٰ نے خیبر کی غنیمتوں کا وعدہ اہل حدیبیہ سے کیا ہے۔ نہ کہ ان سے جو کٹھن وقت پر ساتھ نہ دیں۔ اور آرام کے وقت مل جائیں۔ ان کی چاہت ہے کہ کلام الٰہی کو بدل دیں: یعنی اللہ نے تو صرف حدیبیہ کی حاضری والوں سے وعدہ کیا۔ تو یہ منافقین چاہتے ہیں کہ باوجود اپنی غیر حاضری کے اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ابن زید کہتے ہیں مراد اس سے یہ حکم الٰہی ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ (۸۳) میں ارشاد ہے کہ: ﴿فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ﴾ ’’اے نبی! اگر تمہیں اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد میں نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم ان سے کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو اور میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے نہ لڑو۔ تم وہی ہو کہ پہلی مرتبہ ہم سے پیچھے رہ جانے میں ہی خوش رہے پس اب ہمیشہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔‘‘ یہ مخالفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو۔ تاکہ مال غنیمت میں سے کچھ حصہ ہمیں مل جائے اور ہم بھی آسودہ حال نہ بن جائیں۔ بات یہ نہیں جو وہ سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پاداش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔