بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا
بلکہ تم نے گمان کیا کہ رسول اور ایمان والے کبھی اپنے گھر والوں کی طرف واپس نہیں آئیں گے اور یہ بات تمھارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے گمان کیا، برا گمان اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔
منافقوں کا گمان کہ مسلمان بچ کر نہ لوٹ سکیں گے: اصل معاملہ یہ ہے کہ نہ تمہارا اللہ پر اعتماد ہے نہ اس کے وعدوں پر، تمہارا گمان بس یہ تھا کہ یہ مٹھی بھر لوگ بچ کر واپس نہ آ سکیں گے۔ اور تمہارا یہ گمان ہی نہ تھا بلکہ تمہاری آرزو بھی یہی تھی۔ ہلاک ہونے والے: یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقدر ہلاکت ہے۔ اگر دنیا میں یہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے تو آخرت میں تو بچ کر نہیں جا سکتے وہاں تو عذاب ہر صورت بھگتنا ہو گا۔