سورة الفتح - آیت 10

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پھر جس نے عہد توڑا تو در حقیقت وہ اپنی ہی جان پر عہد توڑتا ہے اور جس نے وہ بات پوری کی جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ اسے جلدہی بہت بڑا اجر دے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بیعت رضوان خون پر بیعت تھی۔ یہ بیعت اس شرط پر لی جا رہی تھی کہ اگر شہادت عثمان کی خبر درست ہو تو مسلمان ان کا قصاص لینے کے لیے جانیں لڑا دیں گے اور جب تک یہ مقصد پورا نہ ہو جائے ان میں کوئی سے زندہ واپس نہ جائے گا۔ اس بیعت کی صورت یہ تھی کہ بیعت کرنے والا نیچے ہاتھ رکھتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اوپر ہاتھ رکھ کر عہد لیتے تھے۔ یہ بیعت دراصل اللہ ہی سے عہد تھا: نیز اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تمہارے ہاتھ کے اوپر دوسرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا ہے۔ بلکہ یہ اللہ کے نائب رسول کا ہاتھ ہے جو اس وقت اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے تم سے بیعت لے رہا ہے۔ عہد کا توڑنا: یہاں مراد بیعت کا توڑنا ہے۔ اور مراد عہد کرکے لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ عہد کا پورا کرنا: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح و غلبہ عطا فرمائے گا۔