وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔
منافق اس دن اپنے قول و فعل کے اعتبار سے کفر سے زیادہ نزدیک تھے۔ وہ مونہوں سے ایسی باتیں کہتے تھے جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی تھیں، ایمان کا اظہار کرتے ہیں مگر ایمان دلوں میں نہیں ہوتا تھا۔ عبداللہ بن اُبی کی طرف اشارہ ہے جب وہ اپنے تین سو ساتھیوں سمیت واپس جانے لگا تو مسلمانوں نے اُسے سمجھایا کہ آج مشکل وقت میں چھوڑ کر جارہے ہو اگر تم لڑنا نہیں چاہتے تو کم ازکم شہر مدینہ کا دفاع ہی کرو۔ اور مسلمانوں کے گھروں کی حفاظت کرو۔ عبداللہ بن اُبی نے مسلمانوں کو جواب دیا کہ ہم تو فنون جنگ سے واقف ہی نہیں پھر تمہارا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔ دراصل یہ طنزیہ جواب تھا کہ جب ہمارے مشورے کو نہیں مانا اور چند پُرجوش جوانوں کے مشورہ کو ترجیح دی گئی کہ باہر کھلے میدان میں لڑنا چاہیے، اب وہی لوگ تمہارا ساتھ دیں گے فنون جنگ کو جاننے والے تو وہ لوگ ہوئے ہم کہاں ہوئے۔ دراصل عبداللہ بن اُبی چاہتا تھا کہ مسلمان تباہ و برباد ہوجائیں اور اُسے کھوئی ہوئی ریاست پھر سے مل جائے۔ بظاہر انھوں نے جواب دے دیا کہ اگر ہم لڑائی جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو سب کچھ معلوم ہے جو انھوں نے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔