فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ
تو وہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے قیامت کے کہ وہ ان پر اچانک آجائے، پس یقیناً اس کی نشانیاں آچکیں، پھر ان کے لیے ان کی نصیحت کیسے ممکن ہوگی، جب وہ ان کے پاس آجائے گی۔
علامات قیامت: سب سے بڑی نشانی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی قیامت کی نزدیکی پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے۔‘‘ (بخاری: ۴۹۳۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشارہ کر کے واضح فرما دیا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان فاصلہ نہیں ہے۔ یا یہ کہ جس طرح ایک انگلی دوسری انگلی سے ذرا سا آگے ہے اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ علاوہ ازیں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی چاند کا پھٹنا بھی تھا جو دور نبوی میں واقع ہو چکا ہے۔ بہت سی احادیث میں قیامت کی نشانیوں کا تذکرہ ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ’’ قیامت کی کچھ نشانیاں یہ ہیں علم گھٹ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، شراب کثرت سے پی جائے گی، زنا عام ہو گا، عورتیں زیادہ ہوں گی اور مرد کم حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا ۔ (بخاری: ۸۱) جب قیامت آ جائے گی: یعنی جب قیامت اچانک آ جائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کر سکیں گے چنانچہ اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو وہ مقبول نہیں ہو گی اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت مفید ہے۔ ورنہ وہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ ان کی توبہ غیر مفید ہو گی۔