فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ
پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے جلدی کا مطالبہ نہ کر، جس دن وہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا نہیں رہے۔ یہ پہنچا دینا ہے، پھر کیا نافرمان لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک کیا جائے گا ؟
اولوالعزم انبیاء: اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تسلی دے رہا ہے۔ کہ آپ کی قوم نے اگر آپ کو جھٹلایا، آپ کی قدر نہ کی، آپ کی مخالفت کی، ایذا رسانی کے درپے ہوئے تو یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہے اگلے اولوالعزم پیغمبروں کو یاد کرو۔ کہ کیسی کیسی ایذائیں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کن کن زبردست مخالفوں کی مخالفت کو صبر سے برداشت کیا۔ ان رسولوں کے نام یہ ہیں۔ حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر فرمایا کہ دیکھ لو ان الوا العزم انبیاء نے کتنی مدت اپنے مخالفوں کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس معاملہ میں جلدی نہ کرنی چاہیے اور صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ دنیا میں بس ایک ساعت ہی ٹھہرے: یعنی آج تو عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں کہ آتا کیوں نہیں جب قیامت کو عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ اتنی جلدی عذاب کیوں آ گیا۔ ہم تو دنیا میں ایک گھڑی ہی ٹھہرے تھے کہ عذاب آ گیا۔ قیامت کا دن کس قدر سخت ہو گا اس کا اندازہ کچھ ان کے جواب سے بھی ہو جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کے عذاب اُسی کو ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں اپنے لیے عذاب مہیا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مستحق عذاب کر دیتے ہیں۔ واللہ اعلم! الحمد للہ سورہ احقاف کی تفسیر مکمل ہوئی۔