سورة الأحقاف - آیت 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کو تیری طرف پھیرا، جو قرآن غور سے سنتے تھے تو جب وہ اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے کہا خاموش ہوجاؤ، پھر جب وہ پورا کیا گیا تو اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر واپس لوٹے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انسان سے پہلے زمین پر جنوں کی آبادی: اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سے دو نوع ایسی ہیں جو شریعت الٰہی کی مکلف ہیں ایک جن اور دوسرے انسان پھر انسانوں سے پہلے جن اس زمین پر آباد تھے۔ اور ان کی طرف بھی پیغمبر مبعوث ہوتے تھے۔ لیکن جس طرح انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہی رہی ہے۔ اسی طرح جنوں کی اکثریت بھی نافرمان ہی تھی اور اب بھی ہے۔ جنوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سننا: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ہمراہ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمانوں کی خبریں ملنا بند ہو گئی تھیں اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ زمین کی طرف لوٹے اور آپس میں کہنے لگے یہ کیا ہو گیا۔ ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہو گئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں ضرور کوئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہو گئی۔ اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ میں تھے۔ اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو نماز فجر پڑھا رہے تھے۔ جب ان جنوں نے قران سنا تو ادھر کان لگا دیے۔ پھر کہنے لگے یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم پر آسمان کی خبر بند کر دی گئی۔ پھر اسی وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہنے لگے: ’’ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے۔ جو نیکی کا رہبر ہے۔ ہم تو اس پر ایمان لا چکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب نا ممکن ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریں۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سورۂ جن میں دی۔ (بخاری: ۷۷۳، مسلم: ۴۴۹)