وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔
والدہ سے حسن سلوک: اس آیت میں پہلے ایک دفعہ ماں اور باپ دونوں سے بہتر سلوک کا حکم دیا۔ پھر تین بار صرف ماں کی خصوصی خدمات کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کی بہترین تفسیر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرے سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ تیری ماں، اس نے دوبارہ پوچھا پھر کون؟ پھر فرمایا، ’’ تیری ماں‘‘ تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ پھر چوتھی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ’’ تیرا باپ‘‘۔ (بخاری: ۵۹۷۱) رضاعت کی مدت شمار: سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رضاعت کی پوری مدت دو سال ہے۔ البتہ اگر والدین کسی ضرورت کے تحت اس مدت میں کمی کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سورہ لقمان کی آیت نمبر ۱۳ میں فرمایا کہ ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ گئے اور اس مقام پر فرمایا کہ حمل اور رضاعت کی مدت تیس ماہ ہے۔ ان سب آیات کو سامنے رکھنے سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے۔ ۱۔ رضاعت کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے۔ اس میں کمی ہو سکتی ہے۔ زیادتی نہیں۔ (۲) حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ چھ ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو وہ موجودہ خاوند کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا بچہ ہو گا۔ اور اس کا وراثت سے بھی کوئی تعلق نہ ہو گا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ حضرت معمر بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہینہ کی ایک عورت سے نکاح کیا۔ چھ مہینے پورے ہوتے ہی اس سے بچہ تولد ہوا۔ اس کے خاوند نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو بلا بھیجا تو وہ کہنے لگی کہ میں نے کبھی برا فعل نہیں کیا۔ تو دیکھو کہ اللہ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوتا ہے۔ جب یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے انھیں رجم کا حکم دیا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے خلیفۃ المسلمین سے دریافت کیا کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ اس عورت کو نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوا جو نا ممکن ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن نہیں پڑھا؟ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا﴾ (الاحقاف: ۱۵) مائیں اپنی اولاد کو دو سال کا مل دودھ پلائیں اور سورہ بقرہ (۱۴) میں ارشاد ہے کہ: ﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ﴾ اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے۔ پس مدت حمل اور مدت دودھ پلائی دونوں مل کر تیس مہینے ہوئے۔ اور اس میں سے جب دودھ پلائی کے ۲۴ مہینے وضع کر دئیے جائیں تو باقی چھ مہینے رہ جاتے ہیں تو قرآن کریم سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ اور اس بیوی صاحبہ کو بھی اتنی ہی مدت میں بچہ ہوا، پھر اس پر زنا کا الزام کیسے قائم کر رہے ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا، واللہ یہ بات بہت ٹھیک ہے افسوس میرا اس طرف خیال نہیں گیا۔ جاؤ اس عورت کو لے آؤ۔ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال میں پایا کہ اسے فراغت حاصل ہو چکی تھی۔ حضرت معمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا یہ بچہ اپنے باپ سے مشابہ تھا۔ خود اس کے والد نے بھی اسے دیکھ کر کہا اللہ کی قسم اس بچے کے بارے میں مجھے اب کوئی شک نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ناسور کے ساتھ مبتلا کیا جو اس کے چہرے پر تھا وہ ہی اسے گھلاتا رہا یہاں تك کہ وہ مر گیا۔(تفسیر در منثور: ۹۱۶) (۳) بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو تو رضاعت کی مدت پورے دو سال قرار دی جائے۔ اگر سات ماہ بعد پیدا ہو تو ۲۳ ماہ، آٹھ ماہ بعد پیدا ہو تو ۲۲ ماہ اور نو ماہ بعد ہو تو ۲۱ ماہ قرار دی جائے۔ (ابن کثیر) پختگی کی عمر: انسان کی جسمانی قوت اور طاقت اگرچہ چالیس سال سے پہلے ہی نطفہ عروج کو پہنچ جاتی ہے تاہم عقل کی پختگی چالیس سال تک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا کو نبوت چالیس سال کی عمر یا اس کے بعد عطا کی جاتی رہی ہے۔ البتہ عیسیٰ علیہ السلام اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے آپ کی کئی باتیں اعجازی حیثیت رکھتی ہیں ویسے ہی نبوت بھی آپ کو تیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور (۳۳) سال کی عمر میں آپ آسمان پر اُٹھا لیے گئے۔ سعادت مند اولاد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی۔ یعنی اے میرے پروردگار میرے دل میں یہ بات ڈال کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی۔ اور میں وہ اعمال کروں جن سے تو مستقبل میں خوش ہو جائے اور میری اولاد میں میرے لیے اصلاح کر دے۔ یعنی میری نسل اور میرے پیچھے والوں میں۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میرا اقرار ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اس میں ارشاد ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع اور رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیے۔