وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اور جب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔
یہود کی اپنے متعلق غلط فہمی: یعنی وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ کسی چیز کے حق ہونے کا معیار ذات والا صفات ہے۔ حق وہی ہو سکتا ہے پھر جب ہم اسے حق نہیں سمجھتے تو یہ چند کمزور درجہ کے لوگوں کے اس کو حق سمجھنے سے وہ چیز حق کیسے بن سکتی ہے۔ کفار مکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ، صہیب رضی اللہ عنہ اور خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جیسے مسلمانوں کو جو غریب اور قلاش قسم کے لوگ تھے۔ لیکن اسلام قبول کرنے میں انھیں سابقیت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ دیکھ کر کہتے ہیں کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو پھر اللہ سب سے پہلے ہمیں ہی نوازتا۔ اللہ تعالیٰ سورہ انعام (۵۳) میں فرماتا ہے کہ: ﴿وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْا اَهٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنۢ بَيْنِنَا﴾ ’’ہم نے اس طرح بعض کو بعض کے ساتھ فتنے میں ڈالا تاکہ یہ لوگ کہا کریں کیا یہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے اللہ نے ان پر فضل کیا۔‘‘ یعنی اگر یہ دین کوئی اچھی چیز ہوتی تو ہم جیسے عقلمند اور معزز لوگ ان لونڈی غلاموں سے پیچھے کیسے رہ جاتے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے جسے وہ پہلے لوگوں کی کہانیاں بھی کہتے تھے۔ اور اس لیے بھی کہ سابقہ انبیا علیہم السلام کی تعلیم بھی بعینہ وہی کچھ تھی جو اس نبی آخر الزماں کی تھی۔ وہ اس کو نیا جھوٹ کہہ ہی نہیں سکتے تھے اور نہ انہیں یہ کہنا گوارا تھا کہ یہ پرانا سچ ہے۔ کیوں کہ ابتدا سے انبیاء کرام یہی سچی تعلیم دیتے رہے ہیں۔