قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمھارے ساتھ (کیا)، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں۔
یعنی رسالت کا سلسلہ کچھ مجھ سے ہی شروع نہیں ہوا، مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر اور سینکڑوں رسول گزر چکے ہیں سب کی تعلیم یہی تھی جو میں تمہیں بتا رہا ہوں میں کوئی نئی اور نرالی بات تم سے نہیں کہتا جسے تم صریح جادو یا بناوٹی باتیں کہہ رہے ہو۔ کسی کے انجام کی خبر اللہ کو ہے: یعنی مجھے نہیں معلوم کہ میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے گا مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہو گا اور یہ کہ تم جلد ہی سزا سے دو چار ہو گے یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی۔ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے۔ میرے اختیار میں تو صرف یہ بات ہے کہ جو کچھ میری طرف وحی کی جا رہی ہے۔ اس کی پیروی کرتا جاؤں اور جو پیغام مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے وہ تمہیں پہنچا دوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہو گا؟ تاہم آخرت کے بارے میں اس بات کا یقینی علم ہے کہ اہل ایمان جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات پر ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا)۔ (بخاری: ۱۲۴۳) اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے۔ الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو۔ جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔