سورة الجاثية - آیت 5

وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور رات اور دن کے بدلنے میں اور اس رزق میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا اور ہواؤں کے پھیرنے میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تیسری نشانی: توالد و تناسل اور بعث بعد الموت: یعنی تمہاری اور جانوروں کی پیدائش کا طبعی پہلو ایک جیسا ہے دونوں ہی زمین سے پیداشدہ پیداوار سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ غذائیں بالکل بے جان ہوتی ہیں۔ انھی غذاؤں سے جانداروں کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں، جسم بڑھتا ہے، خون بنتا ہے، پھر خون سے منی بنتی ہے۔ پھر توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر وقت مردہ اور بے جان غذاؤں کو کئی مراحل سے گزار کر جاندار چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ زمین کو انسانوں اور جانوروں سے آباد کرنا: پھر زمین اور سمندروں میں راستے بنا کر اس نے ان جانداروں کو تمام روئے زمین پر پھیلا دیا ہے۔ اس طرح زمین کا کثیر حصہ بھی آباد کر دیا اور مخلوق کی روزی کا بھی مناسب انتظام کر دیا۔ ان امور میں اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کا عمل دخل نہیں۔ گردش لیل و نہار: رات آتی ہے تو بتدریج آتی ہے یکدم گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں چھا جاتا۔ نہ سورج ہی یکدم پوری آب و تاب کے ساتھ نکل آتا ہے۔ راتیں لمبی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان میں بھی تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ پھر موسم بدلتے ہیں تو ان میں بھی تدریج پائی جاتی ہے۔ جن عظیم الجثہ اور مہیب کرّوں کو کنٹرول میں رکھ کر اللہ نے یہ دن رات کے گھٹنے بڑھنے کا اور موسموں میں تبدیلی کا نظام بنایا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کائنات کا پورا تصرف صرف ایک ہی ہستی کے اختیار میں ہے۔ بارش کا نزول اور مخلوق کے لیے پیدائش رزق: یہاں رزق سے مراد بارش ہے جو تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ پھر اس بارش کے برسنے اور اس پانی سے زمین کی پیداوار اگُنے میں بہت سے عوامل کام کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قوانین کے آگے بالکل بے بس ہیں۔ یہ سارے عوامل اپنی اپنی مقررہ ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں تب جا کر انسانوں اور جانداروں کو رزق حاصل ہوتا ہے۔ ہزاروں اقسام کی نباتات: یعنی زمین ایک، پانی ایک، آب و ہوا ایک اور موسم ایک، لیکن نباتات مختلف اقسام کی اور مختلف رنگوں کی اُگ آتی ہیں۔ ہواؤں کی گردش اور اقسام: یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال جنوب کو کبھی پورب پچھم کو (مشرق مغرب) ہوتا ہے۔ کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بَری ہوائیں، کبھی رات کو کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گرد و غبار کا طوفان، ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے۔ اور وہ ایک ہی ہے۔ تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ ہر قسم کا تصرف وہی کرتا ہے۔ کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا اختیار بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجبور و بے بس نہیں بلکہ وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے اپنی مخلوق کی ہر چیز سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتا ہے۔