فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
سو حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اسے تیری زبان میں آسان کردیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
ہم نے اپنے نازل کردہ اس قرآن کو بہت سہل، آسان، صاف بہت واضح، مدلل اور روشن کر کے تجھ پر تیری زبان میں نازل فرمایا ہے۔ جو بہت فصیح و بلیغ بڑی شیریں اور پختہ ہے۔ تاکہ لوگ اسے آسانی سے سمجھ لیں اور بخوشی عمل کریں۔ باوجود اس کے بھی جو لوگ اسے جھٹلائیں اور نہ مانیں تو انہیں ہوشیار کر دے اور کہہ دے کہ اچھا تب تم بھی انتظار کرو اور میں بھی منتظر ہوں تم دیکھ لو گے کہ خدا کی طرف سے کس کی تائید ہوتی ہے؟ کس کا کلمہ بلند ہوتا ہے؟ کسے دنیا اور آخرت ملتی ہے؟ مطلب یہ کہ اے نبی! تم تسلی رکھو، فتح و ظفر تمہیں ہو گی میری عادت ہے کہ اپنے نبیوں اور ان کے ماننے والوں کو اونچا کروں۔ جیسا کہ سورہ مجادلہ (۲۱) میں ارشاد ہے: ﴿كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔‘‘ اور قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے: ’’یقینا ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کی دنیا میں بھی مدد کریں گے اور قیامت میں بھی۔‘‘ جس دن گواہ قائم ہوں گے اور ظالموں کو ان کے عذر نفع نہ دیں گے۔ ان پر لعنت ہو گی۔ اور ان کے لیے برا گھر ہو گا۔ الحمد للہ سورة الدخان کی تفسیر ختم ہوئی۔