يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب انھوں نے زمین میں سفر کیا، یا وہ لڑنے والے تھے، اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے، تاکہ اللہ اسے ان کے دلوں میں حسرت بنا دے اور اللہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس فاسد، عقیدہ سے روک رہے ہیں۔ جو کفار اور منافقین کا عقیدہ تھا۔ کیونکہ یہ عقیدہ بزدلی کی بنیاد ہے۔ ایسے خیالات کہ اگر وہ فلاں سفر پر نہ جاتا تو شاید بچ جاتا ۔ محض حسرت ہی حسرت ہے۔ ورنہ جو اللہ گھر میں زندہ رکھتا ہے جہاد میں بھی رکھ سکتا ہے اور جو جہاد میں مارسکتا ہے وہ گھر میں بھی مار سکتا ہے۔ موت تو بند قلعوں میں بھی آلیتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ (النساء: ۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں پالے گی۔ اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ اس لیے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتا ہے جن کے عقیدے صحیح ہیں کہ زندگی موت اللہ کے اختیار میں ہے۔