وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ
اور سمندر کو اپنے حال پر ٹھہرا ہو اچھوڑ دے، بے شک وہ ایسا لشکر ہیں جو غرق کیے جانے والے ہیں۔
رَھْوا کے معنی ہیں ساکن، خشک۔ راستہ۔ جو اصلی حالت پر ہو۔ مقصد یہ کہ پار ہو کر دریا کو روانی کا حکم نہ دینا۔ سمندر کو کھڑے کا کھڑا چھوڑنے کی ہدایت اور فرعون کی غرقابی: جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سمندر پار اُتر چکے تو انھوں نے دیکھا کہ فرعون اور اس کا عظیم لشکر ان کے تعاقب میں سمندر کے دوسرے ساحل پر پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام کو خیال آیا کہ سمندر کے پانی میں پھر اپنا عصا ماریں تاکہ سمندر کا پانی پھر سے رواں ہو جائے اور فرعون اور اس کا لشکر سمندر کے دوسرے ساحل پر ہی کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔ اور سمندر میں بنے خشک راستے سے ان کا تعاقب نہ کر سکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ ایسا مت کرو۔ فرعون اور اس کے لشکر کو دریا میں داخل ہونے دو۔ اسی سمندر میں ہی تو ہم نے ان لوگوں کو غرق کرنا ہے۔