وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
اور جب ابن مریم کو بطور مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم (کے لوگ) اس پر شور مچا رہے تھے۔
معبودوں کا جہنم میں داخلہ اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ: جب سورہ انبیاء کی آیت ۹۸ نازل ہوئی کہ ﴿اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ ’’تم بھی اور اللہ کے سوا تم جن چیزوں کو پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنیں گے‘‘ تو مشرکین مکہ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ عبادت تو عیسیٰ علیہ السلام کی بھی کی جاتی ہے۔ تو کیا وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے پھر اس اعتراض کا خوب پراپیگنڈہ شروع کر دیا۔ عبداللہ بن الز بعری نے یہی سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ خاموش رہے۔ کیونکہ آپ خود کوئی جواب دینے کی بہ نسبت یہ بات زیادہ پسند فرماتے تھے کہ مشرکوں کے ایسے اعتراضات کے جو جواب بذریعہ وحی نازل ہوں وہی ان کو جواب دیا جائے۔ آپ کی خاموشی پر مشرکین کھل کھلا کر ہنسنے اور قہقہے لگانے لگے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری دلیل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چپ کرا دیا ہے۔