وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور ان کی بات اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہماری زیادتی کو بھی اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافر لوگوں پر ہماری مدد فرما۔
یعنی اہل ایمان کا بھروسہ محض سامان جنگ، قوت کاریا اپنی کارکردگی پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ ساتھ ساتھ وہ میدان جنگ میں اللہ کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ اس سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں۔ اور دشمن پر غالب آنے کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ میدان بدر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری رات اللہ کے حضور دشمن پر فتح و نصرت کی دعا میں گزاری تھی۔ زیادتیاں کیا ہیں؟ یہ انسان کا اپنی ترجیحات بدل لینا ہے، تب وہ اللہ کے حکم کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ اور اللہ کے کام میں اپنی مرضی کرتا ہے۔ دعا: غلطیوں کا اعتراف، ثابت قدم رکھنا اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کرنا مسلمان عاجزی سے دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ ہم نے کام کیا تو تھا، مگر غلطیاں ہوگئیں پر آپ ہمیں معاف کردینا۔