فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ
پس اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے، یا اس کے ہمراہ فرشتے مل کر کیوں نہیں آئے؟
اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے سونے کے کڑے پہنتے تھے۔ اس طرح قبیلے کے سرداروں کے ہاتھوں میں سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں جو ان کی سرداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی کوئی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہئیں تھے۔ لیکن یہ محض مفلس ہے۔ اچھا یہ بھی نہیں تو اس کے ساتھ فرشتے ہی کر دیتا جو اس بات کی تصدیق کرتے کہ یہ اللہ کا نبی ہے۔ یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان نمایاں کرنے کے لیے اس کے ساتھ ہوتے۔